کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے 

Poet: John Elia

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے

جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے


شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آجاتے ہیں

میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آجاتے ہوں گے


وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا

آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے


اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا

یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے


یارو کچھ تو زکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا

وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے


میرا سانس اکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے

یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے